the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفرصدیوں سے 
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھرکے ہم ہیں 
صدیوں کے سفر کا کچھ حصہ کچھ دیواروں کے درمیان اور کچھ دیواروں کے باہر گزار نداؔ اپنے اصلی سفر پروانہ ہوگئے یوں دنیا کو جادو کا کھلونا قرار دینے والے نداؔنے اس کھلو نے سے خوب حظ اٹھایا دنیا نداؔکے لئے کچھ آسان نہ تھی ، گوالیار سے بھوپال اوربھوپال سے ممبئی کا سفر معاشی مسائل ،خاندان کا ہجر ت کرجانا ‘ نا پسندیدہ سیاسی وسماجی حالات ، ایک سوچنے والے ذہن کے لئے مسائل تھے ۔ نداؔکی ذات اپنے آپ میں ایک بھرا پڑا گائوں تھی ۔ ایک ایسا گائوں جہاں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوںکے ساتھ رواں دواں تھی ، صبح دم چڑیوں کی چہچہاہٹ ، مرغی کی آواز پر دروازے کی چٹخنی کھولتی ماں ‘ مندرکی گھنٹیاں ، موذن کی اذاں ، کنویں سے پانی بھرتی جو انیاں ‘ پیپل کا پیڑ اس پر تھرکتی گلہر یاں ، آنگن کا وہی پیڑ جو دن میں دومت ہوتا ہر رات وہی ایک بھوت کا بسیرا لگتا ‘ سرگوشیاں کرتی ہوا ‘ لہلہاتی کھیتیاں ، امرائیاں ، اپنے ہی گھر کی وسعت کا احساس دلاتی گلیاں ، غرض بے شمار مناظر تھے ۔ اور یہ سارے مناظر اسی گائوں کے ہیں جو نداؔکے اندربستا تھا ۔ وہ اسی گائوں کو اپنے اندربسائے شہر میں آبسے ۔ شہر میں گائوں ۔ شہر میں بسا گائوں ، تین نداؔتو صرف آنکھوں سے دنیا دیکھنے کے قائل نہیں تھے ۔ وہ تو دل کی دھڑکن کو بینائی بناکر دیکھنے میں یقین رکھتے تھے ۔ 
صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی 
دل کی دھڑکن کوبھی بینائی بناکر دیکھو 
نداؔنے اپنی آنکھ اوردل کی دھڑکن دونوں سے بیک وقت بینائی کا کام لیا ۔ اسی لئے تو ان کی ہر تصویر مکمل لگتی ہے ۔ بقول نداؔ’’ لفظوں کا پل میں شامل غزلیں ، نظمیں ، گیت، اور قطعات اس معاشرے کی دین ہیں جو فاصلوں اور دوریوں میں ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں ہوا تھا ۔ایک گھر کا دُکھ پورے محلے کا غم ہوتا تھا ۔ ایک حادثے میں پورا شہر روتا تھا ۔ اس ماتم میں انسانوں کے ساتھ درخت ‘ تالاب ، راستوں میں گھومتے پھرتے جانور، اڑتے ہوئے پرندے ‘ مکانوں کے چھجے سب شریک ہوتے تھے ‘‘نداؔنے اپنی شاعری میں درواز کا تشبہات ’ علائم اور استعارات کا استعمال کم کم ہی کیا ہے ۔ انہوںنے سارے تلازمے ‘ لغظیات اور اسلوب اپنے اطراف کے ماحول ہی سے اٹھائے ہیں چاہے نثر ہو چاہے نظم نداؔسارے کردار بھی اپنے اطراف ہی سے چُنے یہ الگ بات کہ ان کرداروں میں سب سے اہم کردار وہ خود ہوا کرتے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو ہر کہانی کے مرکز میں رکھنے اور اپنی ذات ک ی تشہبیہ کے ہنر سے خوب واف تھے ۔ اپنی کسی نظریاتی وابستگی کا کبھی کھل کر اظہار کیانہ کسی نظریے کی کھل کر مخالفت ، لیکن لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے سورج کو مرغے کی چونچ میں دے کر کھڑا ضرور کردیا ۔
سورج کو چونچ میں لئے مرغا کھڑا رہا 
کھڑکی کے پردے کھینچ دیئے رات ہوگئی 
کسی قسم کی نظریاتی شدت پسندی کے بغیرنداؔکی شاعری انسانی فطرت ‘ اس کے مثبت ومنفی پہلو‘ فرد کی تنہائی ‘ ارباب سیاست کی عیاری ، مذہب کے نام پر تجارت ، فرقہ واریت اورفساات کی تباہ کاری اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کا نوحہ ہے ۔ ان موضوعات کو بیان کرتے ہوئے وہ اپنے لئے ایک حساس فنکار کی امیج کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ان کی یہ امیج کسی فلسفانہ گہرائی یا فکری عمق کی نہ تو متقاضی تھی اور نہ ہی متحمل ۔ یہ تولے کر ہاتھ میں اک تارا ‘گاتا جائے بنجارا والی امیج ہے ۔ جس کا راست رشتہ کبیرؔکے پنتھ سے ملتا ہے ۔ نداؔبھی کبیر پنتھی



تھے ۔ اسی لئے ان کے دوہوں سے ہٹ کر بھی ان کے گیتوں ‘ نظموں ، غزلوں حتیٰ کہ ان کی نثر پربھی اس کی چھاپ نمایاں ہے ۔ 
تنہا تنہا دُکھ جھلیںگے ‘ محفل محفل گائیں گے ۔
جب تک آنسو پاس رہیںگے ‘ تب تک گیت سنائیںگے 
من بیراگی ‘ تن انوراگی ‘ قدم قدم دشواری ہے 
جیون جینا سہل نہ جانو ، بہت بڑی فن کاری ہے 
دانائوں کی بات نہ مانی کام آئی نادانی ہی 
سنا ہوا کو ‘ پڑھاندی کو ‘ موسم کواستاد کیا
سادھوئوں اور سنتوں کا مزاج رکھنے والا شاعر نداؔآدمی اور آدمیت پریقین رکھتا تھا ۔ اس کے نزدیک آدمی دنیا کے ہرازم‘ ہر مذہب ہر فرقے اور ہر مسلک سے افضل ہے ۔
ہرآدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی 
جس کو بھی دیکھنا ہوکئی باردیکھنا 
ہجرت کا دُکھ نداؔنے بنا ہجرت کئے جھیلا ہے ۔ اسی لئے تو اُسے کراچی ماں اور ممبئی بچھڑا ہوا بیٹا لگتا ہے ۔ لیکن اپنے خاندان سے بچھڑنے سے زیادہ دُکھ اسے اگر کوئی ہے تو وہ ہے تقسیم وطن کا دُکھ ۔
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی 
اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی 
ہندوبھی مزے میںہیں ‘ مسلمان بھی مزے میں 
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاںبھی 
چاہے افراد ہوں کہ نظام حکومت نداؔکی جرأت و بے باکی کا مزہ بہتوں نے چکھا ہے ۔ ’’سوانحی ناول دیواروں کے بیچ ‘‘میں اپنے والدین کی ازدواجی زندگی کا نقشہ ہوکہ خود اپنی بے راہ رویوں کا تذکرہ ‘ خاکوں کے مجموعوں میں اپنے بزرگوں سے لے کر دوستوں تک کا خاکہ اڑایا بھی ہے اور اس میں رنگ بھی بھرے ۔ ایک سیاسی رہنما کے نام نظم اس کی موجودگی میں سنا کر انجام کی پرواہ نہ کرنے والے کو بھی دنیا نداؔ فاضلی ہی کے نام سے جانتی ہے ۔ مذہب کے نام پر ٹھیکہ داری کے خلاف نداؔکے قلم نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ 
نظم اور نثر دونوں پر قدرت اور دونوں ہی میں اپنا اسلوب پالینا ندا ؔہی کا کمال ہے ۔ بقول وارث علوی نداؔکسی اسلوب کے اسیر نہیں اور وہ ایک نئی زمین میں اپنی جڑیں تلاش کرنے کے عمل میں کامیاب ہے ۔ جبکہ بشر نواز کے مطابق گھر‘ خدا اور شہر نداؔفاضلی کی شہری رامائن کے تین اہم کردارہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر نداؔ کی شاعری کا ایک اہم استعارہ ہے ۔ خدا آسمانی دھندلکوں کی بجائے زمین پر سانس لیتے رشتوں میں موجود ہے ۔ جب بھی کوئی رشتہ ٹوٹتا ہے ۔ جب بھی کوئی سہارا چھوٹتا ہے اور جب بھی کوئی فکری خلاء نمودار ہوتا ہے ۔ نداؔاپنے آپ کو خدا سے مزید قریب پاتا ہے ۔ جبکہ شہر نداؔکے لئے اس معاشرے ‘ اس سماج اور اس ماحول کا استعارہ ہے جس سے ہزار عدم اتفاق کے باوجود وہ متفق ہے ۔
انسان اور انسانی زندگی کی بے شمار خرابیوں ‘ نا چاقیوں اور عدم رواداریوں کے باوجود انسان اور زندگی کے تئیں اس کا رویہ ہمیشہ مثبت رہا اور وہ یہی کہتا رہا کہ مجھے بھول جیسے چہرے اور چہرے جیسے پھول اچھے لگتے ہیں ۔ بقول نداؔ’’ چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصورآنکھیں ‘‘ ندا ؔکی زندگی میں ایسے بے شمار لمحے آئے اور اس نے بے شمار تصویر یں اپنی تحریروں کی شکل میں ہمارے لئے چھوڑی ہیں ۔
چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں 
زندگی روز نئی تصویر بنانے سے رہی (یو این این)


ڈاکٹر سلیم محی الدین پربھنی
Cell:. 9923042739 
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.